ads

Search here

Articles

دوسری عالمی بلوچی کانفرنس
 
 بلوچی سمیت تمام زبانوں کو قومی زبان کا درجہ ملنا چاہئے
 کوئٹہ میں منعقدہ دوسری عالمی بلوچی کانفرنس کی روداد

     نصف پاکستان لیکن انتہائی غربت زدہ،پسماندہ ترین ،غاروں اور پتھروں کے عہد میں زندہ....بلوچستان کا عموماََ یہی تعارف آپ سنتے اور پڑھتے آئے ہوں گے۔ حالانکہ اس تعارف کا ایک اور پہلو بھی ہے ؛انتہائی با وقار، نہایت امیر زبان، زندہ کلچر کا مالک، بلوچستان کا یہ تعارف بہت ہی کم ملے گا آپ کو۔ اس لئے کہ عمامِ اقتدار اُس سرداری طبقے کے ہاتھ رہی ہے جنہوں نے انگریز کے زمانے سے ہی یہ گر سیکھ لیا تھا کہ جس قدر غربت کا رونا روﺅ گے، اس قدر خیرات میں حصہ ملے گا۔مفادات کے لئے وقار بیچ دینے والوں کے لئے زبان اور کلچر کوڑے دان کی چیزیں ہیں۔ سو،اس عوامی ملکیت کو سنبھالنے کی ذمہ داری عوامی طبقہ ہی کے سر ٹھہری، جنہیں عوام دانشور کہہ کر سر آنکھوں پر بٹھاتے ہیں۔یہ گل خان نصیر جیسے لوگ ہی ہوتے ہیں جو قوموں کے وقار کو تاریخ، کلچر،زبان، اور شعرو ادب کے ذریعے زندہ رکھنے کا جان جوکھم والا کام کسی صلے اور ستائش کی تمنا کے بنا جاری رکھتے ہیں۔گل خان کی اس روایت کو بلوچ دانشوروں نے بلوچی اکیڈمی کی صورت دی۔برس ہا برس تک بے سہارا رہنے والی اس اکیڈمی نے بالآخر ایک ایسے گھر کی صورت اختیار کر لی جہاں دنیا بھر میں بلوچی لکھنے، پڑھنے والے ایک جگہ اکھٹے ہو تے ہیں، اور اس بے سہارا زبان و کلچر کو سہارا دینے کی سعی کرتے رہتے ہیں۔ ایسی ہی ایک سعی جولائی کے اواخر میں دوسری عالمی بلوچی کانفرنس کی شکل میں کوئٹہ کے ایک مقامی ہوٹل میں ہوئی ۔ جہاں دنیا کے مختلف کونوں کھدروں سے بلوچی بولنے اور لکھنے ،پڑھنے والے لوگ جمع ہوئے۔ یہ نیک اکٹھ دو روز تک جاری رہا۔
     اپنے قیام کے پچاس برس مکمل کرنے والی بلوچی اکیڈمی کے زیر اہتما م کوئٹہ میں ہوئی اس دورزہ کانفرنس کا عنوان تھا؛”بلوچی ادب، زبان اور ثقافت، عالمی تناظر میں“۔کانفرنس کے پہلے روز کے سیشن کا افتتاح صوبائی وزیر کھیل و ثقافت اور امورِ نوجوانان شاہنواز مری نے کیا۔پہلے دن کے پہلے سیشن کا آغاز تلاوت سے کیا گیا۔ جس کی سعادت شعبہ بلوچی،جامعہ بلوچستان کے طالب علم اورنگزیب نے حاصل کی۔بلوچی اکیڈمی کے چیئرمین عبدالواحد بندیگ نے استقبالیہ کلمات کہے اور بیرون و اندرون ملک سے آئے ہوئے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔ کانفرنس کے چیف آرگنائیزر ڈاکٹر عبدالرزاق صابر نے شرکا کو کانفرنس کے مقاصد سے آگاہ کیا۔
    افتتاحی خطاب کرنے والے صوبائی وزیر میر شاہنواز مری کا کہنا تھا کہ بلوچی اکیڈمی سے میری روحانی وابستگی ہے کیونکہ میرے والد جسٹس خدا بخش مری کی کوششیں اور کاوشیں اس کی بنیادوں میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی صبح ان کے لئے خوشی کی نوید لے کر آئی ہے کہ کیونکہ آج بلوچی اکیڈمی نے ان تما م ادبا، شعرا اور دانشوروں کو ایک ساتھ بیٹھنے کا موقع فراہم کیا ہے جو بظاہر مختلف زبان، نسل اور ثقافتوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن ان کی ذاتی دلچسپیاں بلوچ، بلوچستان اور بلوچی سے متعلق ہیں ۔بلوچی اکیڈمی نے پچاس سال جس مالی اور عدم تو جہی کی مشکلات سے گزارے ہیں، ہم سب کو ان کا اندازہ ہے ،اس کے باوجود ان پچاس سالوں میں اکیڈمی نے جوسرگرمیاں انجام دی ہیں ، وہ ناقابلِ فراموش ہیں ۔ بلوچستان حکومت، بلوچی اکیڈمی ساتھ ہر قسم کے تعاون کے لئے تیار ہے۔
    پہلے سیشن سے آرمینیا سے آئے ہوئے لسانیات کے اسکالر پروفیسر ڈاکٹر وائے بوئے جان، امریکہ سے تشریف ہوئے بلوچ دانشورڈاکٹر نیک محمد بزدار، کانفرنس کے آرگنائزر پروفیسر ڈاکٹر رزاق صابر، بلوچی اکیڈمی کے صدر عبدلواحد بندیگ اور نائب صدرمنیر احمد جان نے خطاب کیا۔ دوسرے سیشن بعنوان ”بلوچی زبان کی لسانی خصوصیات“ میں پروفیسر ڈاکٹر وائے بوئے جان، مقتدرہ قومی زبان کے چیئرمین ڈاکٹر انوار احمد خان، اردو سائنس بورڈ کے خالداقبال یاسر،ڈاکٹر نور احمد رئیسانی، ڈاکٹر کہور خان بلوچ اور پروفیسر حامد علی خان نے مقالے پڑھے۔ تیسرے سیشن میں ”بلوچی زبان، تاریخ اور ثقافت کے تناظر میں“ کے عنوان پر ڈاکٹر منیر احمد بلوچ، اٹلی سے آئے ڈاکٹر بدل خان، اسلام آباد سے آئے پروفیسر واحد بخش بزدار، پروفیسر ڈاکٹر علی نواز شوق، ڈاکٹر نیک محمد بزداراور محمد پناہ بلوچ نے مقالے پڑھے۔ ان تمام اہلِ قلم کا یہ متفقہ خیال تھا کہ پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو قومی زبانوں کو درجہ دیا جانا چاہئے۔بلوچی ،اس خطے میں بولی جانے والی تاریخی زبانوں میں سے ایک ہے جو اپنی لسانی خصوصیات کی بنا پر منفرد و ممتاز مقام کی حامل ہے۔ یہ اس خطے کی قومی ثقافت کا مظہر ہے۔ بلوچی بولنے والوں کے علاوہ غیر بلوچ ادیبوں اور دانشوروں نے اس کی ترویج کے لئے جو کردار ادا کیا ہے ،وہ قابلِ تحسین ہے۔ پاکستان میں زبان و ادب کے حوالے سے کام کرنے واے اداروں کو بھی اس ضمن میں اپنا کردار کرنا چاہئے اور بلوچی سمیت پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانو ں کو قریب لانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ اس موقع پر مقتدرہ قومی زبان کے نئے چیئرمین اور معروف ترقی پسند ادیب ڈاکٹر انوار احمد نے بلوچی زبان و ادب کی ترویج میں خصوصی طور پر اپنے ہر ممکن تعاون کا یقین دہانی کروائی۔
    دوسرے روز کے سیشنز میں مقررین نے اپنے خطاب میں مجموعی طور پر بلوچی زبان کی لسانی خصوصیات، اور تاریخی و ثقافتی تناظر میں اس کا جائزہ لیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ بلوچی ،دنیا کی ان چند زبانوں میں سے ایک ہے جو سرکاری و ریاستی سرپرستی سے محرومی کے باوجود نہ صرف اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے بلکہ تیزی سے پھل پھول رہی ہے۔ ان کا مطالبہ تھا کہ اگر اسے سرکاری سرپرستی حاصل ہو تو یہ زبان علاقائی یکجہتی کے فروغ میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ دوسرے روز کے مقررین نے بھی یہ مطالبہ دہرایا کہ بلوچی سمیت پاکستان میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو قومی زبان کا درجہ دیا جائے اور انہیں سرکاری سطح پر تعلیمی اداروں میں رائج کیا جائے۔    اس دوران سوال جواب کے سیشن بھی ہوئے،کچھ گرما گرمی بھی ہوئی ، کچھ علم و معلومات کا تبادلہ بھی۔
    دوسرے روز کی اختتامی تقریب سے خطاب کرنے والے صوبائی وزیر زراعت و امداد باہمی میر اسد اللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ کسی بھی قوم کی بقا و سلامتی کا تعلق اس کی اپنی سرزمین سے محبت میں پنہاں ہے۔ اس لحاظ سے بلوچ اپنی سرزمین سے ذہنی اور روحانی طور پر جڑے ہوئے ہیں ۔انہوں نے بلوچی اکیڈمی کی کانفرنس کو دُور رس نتائج کا حامل قرار دیتے ہوئے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ کانفرنس میں امریکہ،اردن،آرمینیا، اٹلی اور ملکی سطح پر سندھ ،پنجاب اور وفاقی دارالحکومت سمیت بلوچستان بھر سے اہلِ زبان دانشور اور ادیب یکجاہوئے۔ نیز انہوں نے یہ تجویز بھی دی کہ اکیڈمی صوبائی سطح پر بلوچ ادیب اور دانشوروں کو اسی طرح یکجا کر ے ،اس کے لئے انہوں نے خطیر رقم کے فنڈ کا بھی اعلان کیا۔
     علاوہ ازیں دو روزہ کانفرنس کے اختتامی اجلاس میں مختلف گروپس تشکیل دیے گئے جنہوں نے بلوچی زبان ،تاریخ و ثقافت اور رسم الخط سے متعلق ٹھوس تجاویز پیش کیں۔ جبکہ تقریب کے آخر میں صوبائی وزیر اسد بلوچ نے سیمینار میں شرکت کرنے والے مندوبین اور انتظامی کمیٹی کے ارکان میں شیلڈز تقسیم کیں۔
    قبل ازیں بلوچی اکیڈمی کے چیئرمین عبدالواحد بندیگ کا، میڈیا کے نمائندوں کو دی جانے والی بریفنگ میں کہنا تھا کہ زبان محبت و یگانگت کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔اگر زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو جائے تو وہ نہ صرف نشو ونما پاتی ہے بلکہ قوم کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے ،لیکن بدقسمتی سے بلوچی زبان و ادب کی ترقی و ترویج کے لئے حکومتی سر پرستی نہ ہونے کے برابر ہے ۔اکیڈمی کی تاریخ و کاکردگی سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اکیڈمی اپنے دستیاب و محدود وسائل میں رہتے ہوئے بلوچی زبان و ادب کی ترقی و تریج کے لئے ہر ممکن اقدام کر رہی ہے ۔ اکیڈمی کے زیر اہتمام اب تک تین سو کے قریب کتب شائع کی جا چکی ہیں ۔ان کا کہنا تھا کہ فنڈز کی عدم دستیابی اور حکومتی سر پرستی نہ ہونے کی وجہ سے بلوچی اکیڈمی کے متعدد منصوبے تعطل کا شکار ہو گئے ہیں جن میں بلوچی لغت، انسائیکلو پیڈیا اور قدیم بلوچی ادب شامل ہیں۔ کئی مسودے اس وقت تیار پڑے ہیں لیکن وسائل کی عدم دستیابی کے باعث ان کی اشاعت نہیں ہو پا رہی۔ انہوں نے بتایا کہ بلوچی اکیڈمی کی خواہش ہے کہ زبان کو عام کیا جائے اور بول چال کی مختلف کتب کی اشاعت کو ممکن بنایا جا سکے،اور جماعت اول تا دہم بلوچی کو نصاب میں شامل کیا جائے۔ کیونکہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی زبان کو زندہ رکھنے اور اس کی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے زبان کو ذریعہ تعلیم بنانا انتہائی ضروری ہے۔ مزید یہ ایک اگر کوئی زبان ذریعہ تعلیم کی حیثیت سے ترقی پاتی ہے تو لازماََ ایک دن سرکاری زبان کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ تاہم ذریعہ تعلیم اور سرکاری زبان کی حیثیت سے برقرار رہنے کے لئے کسی بھی زبان کو ہم عصر تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا پڑتا ہے اور کوئی بھی زبان عصر تقاضوں سے اس وقت ہم آہنگ ہوتی ہے جبکہ اس زبان کے مسائل کی نشاندہی کی جاتی ہے اور ان کو حل کیا جاتا ہے۔ان تقاضوں کی تکمیل کے لئے حکومت کی جانب سے عملی اقدامات نا گزیر ہیں۔
     واضح رہے کہ کانفرنس کے دو روز بعد ہی وزیر اعلیٰ بلوچستان نے اکیڈمی کے سالانہ فنڈ کو 12لاکھ سے بڑھا کر 50لاکھ سالانہ کر دیا ، جبکہ بلوچی لغت کی اشاعت کے لئے 45لاکھ روپے کی خطیر رقم بھی جاری کر دی ۔
٭٭٭

 بلوچی اکیڈمی کے پچاس سال!
     اگست دو ہزار گیارہ میں بلوچی اکیڈمی نے اپنے قیام کے پچاس سال پورے کر لئے ۔ بلوچی کی ترویج و ترقی کے اس واحد و اکلوتے ادارے کی بنیاد میں بلوچ ادبا اور دانشوروں کی اَن تھک محنت اور جدوجہد شامل ہے۔ بلوچی کے نامور ادبا اور دانشوروں کا اس کی بنیاد میں اہم کردار رہا ہے ،جن میں بشیر بلوچ، ملک محمد پناہ، جسٹس خدا بخش مری، میر گل خان نصیر ، عطا شاد،عبداللہ جان جمالدینی و دیگر شامل ہیں ۔ واضح رہے کہ اپنے قیام کے لگ بھگ ابتدائی چالیس برس تک بلوچی کی یہ واحد اکیڈمی کسی قسم کے باضابطہ دفتر اور عمارت سے محروم تھی۔ اس کے اجلاس کبھی کسی ہوٹل میں ،یا کسی ادیب کے گھر پر منعقد ہوتے تھے۔ پہلی بار 1998ءمیں سردار اختر مینگل کی حکومت ، اور جان محمد دشتی کی سربراہی میں اکیڈمی کو موجودہ عمارت نصیب ہوئی۔
٭٭٭
 ہزاروں شکایتیں ایسی........
     بلوچی اکیڈمی کی عالمی کانفرنس جہاں منتظمین کے بقول شاندار رہی ، وہیں اس کے ناقدین بھی کچھ کم نہ تھے۔ ناقدین کی ایک بڑی شکایت یہ تھی کہ بلوچی کی عالمی کانفرنس میں بلوچستان کے کئی اہم ادیبوں اور دانشوروں کو نظر انداز کیا گیا اور انہیں دعوت نہیں دی گئی۔ دعوت نامے کے معاملے میں میرٹ کی بجائے دوستیوںکا زیادہ خیال رکھا گیا۔نیز یہ کہ دو روز تک جاری رہنے والی کانفرنس کسی حتمی نتیجے کے بغیر نشستند،گفتند و برخاستند تک محدود رہی۔ بلوچستان کی سیاسی صورتحال کے تناظر میں کچھ نہیں کہا گیا۔ بعض حلقوں نے تو اسے محض فنڈ جمع کرنے کا ایک ڈھکوسلہ قرار دیا۔ دوسری طرف اکیڈمی کے چیئرمین کا کہنا تھا کہ کئی مقامی و عالمی دانشوروں نے حالات کے پیش نظر آنے سے معذرت کر لی۔ حال ہی میں قتل کئے گئے بلوچی کے ادیب صبا دشتیاری کے قتل نے کئی لکھنے والوں کو خوفزدہ کر دیا ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ تھی کہ دو روزہ تقریبا ت میں صبادشتیاری کا تذکرہ کہیں سننے کو نہ ملا، نہ ان علمی و ادبی خدمات کا کہیں ذکر ہوا، نہ ان کے بہیمانہ قتل پہ کوئی بات ہوئی۔
٭٭٭